(زبیدہ ارم ،لاہور)
محترم حضرت حکیم السلام علیکم!اللہ تبارک تعالیٰ سے دعا ہے کہ اللہ آپ کو اور آپ کی نسلوں کو عافیت ‘صحت و تندرستی والی زندگی عطا فرمائے‘اللہ پاک سدا تسبیح خانہ کو آپ کی نسلوں کے ذریعے آباد رکھے‘ جو فیض آپ کے درس کے ذریعے لوگوں کو مل رہا ہے تا قیامت ملتا رہے ‘ آمین۔عبقری تسبیح خانہ کی نسبت کے بعد زندگی میں ایک انقلاب برپا ہوا ہے‘ایک مثبت سوچ ملی ہے کے ہم ہر پل ‘ ہر لمحہ لوگوں کی بھلائی اور رہنمائی کے لئے اگر کچھ کر سکتے ہیں تو یہ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے حاصل ہونے والی بہت بڑی سعادت ہے ۔
غسل دینے والی کوئی اور خاتون موجود نہیں
اکثر آپ کے درس میں یہ بات سنی کہ اللہ کا ذکر کرنے والا مرتا نہیں ہے اور اللہ کے ہاں اس کو بڑا مقام اور عزت ملتی ہے۔ میں اکثر میت کو غسل دیتی ہوں‘ ہمارے محلے میں غسل دینے والی کوئی خاتون موجود نہیں اور لوگ اکثر مجھے غسل کے لئے بلا لیتے ہیں‘ جبکہ نہ یہ میرا پیشہ ہے اور نہ ہی میرا شعبہ ہے‘ بس اللہ کی رضا کے حصول کے لئے اس سے ڈرتے ہوئے میں لوگوں کی سہولت کو مدِنظر رکھتے ہوئے میت کو غسل دیتی ہوں اور اللہ سے میت اور سب کے لئے رحم کی دعا بھی کرتی ہوں۔ کچھ دن پہلے کی بات ہے میرے ساتھ ایک عجیب معاملہ پیش آیا‘ ہمارے محلے میں ایک خاتون کا انتقال ہوا‘ وہ عورت بہت نیک اور زیادہ وقت اللہ کے ذکر اور عبادت میں گزارتی تھی‘ پنچ گانہ نماز اور قرآن کی تلاوت بھی اس کے روز کے معمولات میں شامل تھا۔ وہ سب کے ساتھ بہت عمدہ اخلاق کے ساتھ پیش آتی‘ خود کو لڑائی جھگڑوں سے دور رکھتی اور دوسروں کو بھی اس کی تلقین کرتی تھی۔ جو عورت بھی ان سے ملتی ‘باتیں کرتی تو وہ اس نیک خاتون سے بہت متاثر ہوتی‘ وہ میری ساس کی بہن بنی ہوئی تھی‘ میں خود بھی متعدد بار ان سے مل چکی تھی اور وہ بہت خوش مزاج‘ نرم طبیعت تھی۔ اس کے علاوہ وہ بہت عمدہ اور مفید نصیحت والی باتیں کرتی تھیں جس دن ان کا انتقال ہوا اس دن میری اپنی طبیعت بہت خراب تھی‘ جوڑوں میں شدید درد تھا۔ جب مجھے ان کی وفات کی اطلاع پہنچی اور میں گھر والوں کے ساتھ جب ان کے ہاں گئی تو مرحومہ کی بیٹی مجھ سے کہنے لگی کہ مجھے میت کو غسل دینے کو طریقہ بتادیں۔ میں نے ان سے کہا کہ اس کے لئے آپ کسی غسل دینے والی خاتون سے رابطہ کریں‘ مگر ان کی بیٹی نے بتایا کہ والدہ کی یہ وصیت تھی کہ آپ انہیں غسل دیں۔ اس دن میری اپنی طبیعت ناساز تھی اور مصروفیت بھی کچھ اس طرح کی تھی میں چاہتی تھی کہ کوئی اور غسل دے دے‘ لیکن ان کی والدہ کی وصیت سن کر میں شش وپنج میں مبتلا ہوگئی کہ اب اس صورت میں مجھے کیا کرنا چاہئے‘ پھر میں نے اللہ کی رضا کو اور وقت کے تقاضے کی پیش نظر میت کو غسل دینے کی حامی بھر لی۔
غسل کے وقت میت کی حرکت
یہ بات اللہ نے میرے دل میں ڈالی کہ اگر میں نے اپنی طبیعت کی ناسازی کو مد نظر رکھتے ہوئے اس میت کو غسل نہ دیا تو نبی کریمﷺ کے اس فرمان کی نفی ہوگی جس میں آپﷺ نے فرمایا :مفہوم ہے کہ والدین کے دوست اور رشتہ داروں کو عزت دو اور ان کی مدد کرو۔نماز عصر کا وقت ہوا تو نماز پڑھنے کے بعد روز کے معمولات کے ذکر وتسبیحات میں مشغول ہوگئی ‘ کچھ ہی دیر میں مجھے دوبارہ بلا لیا گیا کہ میت کو جلدی غسل دیں کیونکہ میت کوان کے کسی آبائی گائوں لے جا کر دفن کرنا ہے‘ میں فوراً میت کو غسل دینے کی نیت سے چل پڑی۔میت کو تختہ پر ڈالا گیا ‘ جب غسل کا آغاز کیا تو میں نے میت کی دائیں جانب دیکھا تو ہلکی سی میت نے حرکت کی جسے دیکھ کر میں فوراً چونک گئی‘ میت کو بائیں جانب ان کی بڑی بیٹی جب کہ سرہانے والی سائیڈ پر ان کی چھوٹی بیٹی بھی کھڑی تھی ۔اچانک میت کےبازو نے جب دوبارہ حرکت کو تو ان کی بیٹیوں نے شور شروع کر دیا کہ والدہ ابھی زندہ ہے‘ اسی اثناء میں مرحومہ کی بازو پر جہاں ڈاکٹروں نے انتقال سے پہلے ڈرپ لگائی تھی اس جگہ سے خون بہنا بھی شروع ہو گیا‘ وہاں موجود ان کی بیٹیاں اور میں یہ منظر دیکھ کر حیران ہوگئیں کہ یہ کیا معاملہ ہو رہا ہے؟وہ بہت نیک خاتون تھی‘تین دن سے وینٹی لیٹر پر تھی‘میں نے ان کےدل کی دھڑکن کو چیک کی تو مجھے کوئی حرکت محسوس نہ ہوئی‘ مگر اتنی دیر میں پورے گھر میں ایک شور مچ چکا تھا کہ امی زندہیں۔ڈاکٹر کو بلایا گیا‘تو ڈاکٹر نے کافی تسلی سے چیک کرنے کے بعدبتایا کہ یہ زندہ نہیں ‘وفات پا چکی ہیں۔اتنی دیر میں جب اان کے بازو سے ڈرپ والی سوئی اتاری گئی تواس پر لگا خون بھی جم چکا تھا۔ڈاکٹر کے جانے کے کچھ دیر بعد جب ان سب کو تسلی ہوگئی تو میں نے دوبارہ غسل دینا شروع کیا‘تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ مرحومہ کے جسم سے پھر ہلکی سی حرکت محسوس ہوئی‘ اس کے بعد میرے دل میں یہ بات آئی کہ یہ اللہ کا ذکر کرنے والی نیک خاتون ولیہ تھی اور یہ میت پکار رہی ہے کہ ’’اللہ کے ولی کبھی مرا نہیں کرتے وہ سدا زندہ رہتے ہیں‘‘ یہی بات میں نے ان کی بیٹیوں کو سمجھائی اور اس کے بعد وہ بھی مطمئن ہوگئیں۔
غسل دینے کے بعد عجب کرامت ہوئی
میت کو غسل دینے کے بعد جب میں گھر واپس آئی تو ایک عجیب کرامت محسوس کی‘وہ یہ کہ اس نیک میت کو غسل دینے سے پہلے میری کمر اور جوڑوں میں بہت درد ہورہاتھا جو بالکل ٹھیک ہوگیا‘ میرے ہاتھوں کے جوڑ جو بالکل بھی ہل نہیں رہے تھےوہ بھی ٹھیک ہوگئے ‘ بہت دن تک اس میت کو غسل دینے کے بعد میری صحت میں وہ برکات موجود رہیں اور میں تندرست ہوگئی۔
میت کو غسل دیا اورطبیعت خراب ہوگئی
جب کہ اس کے برعکس اس نیک خاتون کو غسل دینے سے چند ماہ پہلے میں نے ایک خاتون کو غسل دیا تھا جس کے بعد میری طبیعت بہت خراب ہوگئی تھی اور بیمار پڑ چکی تھی‘لیکن اس نیک اللہ کا ذکر کرنے والی خاتون کو غسل دینے کے بعد میں بالکل ٹھیک ہوگئی اور اس بات کا باقاعدہ مشاہدہ ہوا کہ:’’بلھے شاہ اساں مرنا ناہیںگور پیا کوئی ہور‘‘ اس بات کو شیخ الوظائف اکثر اپنے درس میں بیان فرماتے رہتے ہیں کہ اللہ کا ذکر کرنے والے یعنی اللہ کے ولی کبھی مرتے نہیں بلکہ وہ زندہ ہوتے ہیں۔اس بات کا اصل مفہوم اور مقصد مجھےاس نیک خاتون کو غسل دیتے وقت سمجھ میں آیا جو کہ اللہ نے دکھا دیا کہ کس طرح وہ اپنے نیک بندوں کو مرنے کے بعد بھی زندہ رکھتا ہے اور ان کے جسم کو بھی سلامت اور زندہ رکھتا ہے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں